Pages

پیر، 25 مئی، 2015

کیا عنوان دوں ؟

ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں کہاں تک لائے ناتواں دل کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں ناصر کاظمی آخری مصرعے میں تو حد مک گئی ہر کسی کو اپنے پیارے جو بچهڑ گئے ہیں آخری مصرعہ پڑھ کے ضرور یاد آ گئے ہوں گے مجهے میری امی جان یاد آ گئیں آہ ان کا مجھ سے جدا ہونا میرا بس چلتا تو اپنی ماں کو اپنے سے دور نہ کرتا لیکن هائے اے موت تجهے موت آئے کیسا پیارا رشتہ تو نے مجھ سے چهینا تجھ سے بچهڑا تو پتہ چلا موت کیا ہے زندگی وہ تهی جو تیری محفل میں گزار آئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں