Pages

جمعہ، 1 جنوری، 2016

اعتراف

مجھ سے ہر کوئی اختلاف کر سکتا ہے
جو میں نے محسوس کیا وہ بیان کر رہا ہوں

سرائیکی کہاوت ہے
ٹر آپ نہ سگھاں ڈوہ گوڈیں تے ڈیواں
(چل خود نہ سکوں اور الزام گھٹنوں پر )
جب میں نے نوجوانی میں قدم رکھا تو مجھ میں قوم پرستی کے جراثیم بہت تھے میرا مطلب یہ سرائیکی پنجابی مہاجر  والا تعصب مجھ میں بھی تھا
یہ نہیں کہ میں کھلم کھلا اس کا اظہار کرتا تھا بلکہ چوری چھپے نجی محفلوں میں  یہ قوم پرستی کی باتیں ہوتی تھیں
میں سمجھتا تھا کہ یہ جو پنجابی ہیں ناں یہ ہمارے سرائیکیوں کے حقوق پر ڈاکہ مارے ہوئے ہیں
ہمارے دیہات نما شہر میں سارے کاروبار چاہے کریانہ ہو آڑھتی ہو زمیندار ہو وغیرہ وغیرہ  پر پنجابی قابض اردگرد ساری زمینوں کے 90% مالک یہ پنجابی
تو میں سوچتا تھا کہ یہ سب قابض ہیں جو انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں سادہ لوح سرائیکیوں پر حکومت کرتے ہیں
تعصب کی پٹی آنکھوں پر چڑھی ہو تو سامنے کی سچائی بھی نظر نہیں آتی
تو تعصب کی وجہ سے پنجابیوں کی محنت کام سے لگن یہ سب نظر نہیں آتا تھا
لیکن  کافی تحقیق اور سوچ وچار کے بعد اب سمجھ آیا کہ میں غلط تھا
پنجابیوں یا مہاجر کہہ لیں انہوں نے جتنی ترقی کی ہے یہ ان کی بے پناہ محنت لگن قربانی کا نتیجہ ہے
میں صرف ایک دو واقعات سنا کر بات ختم کرتا ہوں
ہمارے گاؤں یا قصبہ کہہ لیں
یہاں پر سنہ1947 میں کرنال سے آرائیں قوم کا ایک خاندان ہجرت کر کے آیا
یہاں پر انہیں 5 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی جو غیر آباد تھی دو بھائی تھے دونوں نے مل کر محنت شروع کر دی صبح فجر کی نماز پڑھ کر زمین پر آ جاتے بیلوں کی جوڑی ونگار  (مانگ کر ) لے کر کام پر لگ جاتے اور شام تک لگے رہتے روکھی سوکھی کھا کر شکر ادا کرتے کبھی دیہاڑی پر مزدوری بھی کر لیتے
موسم چاہے سرد ہو یا گرم بارش آئے یا طوفان یہ کام پر لگے رہتے 
مقامی لوگ ان پر ہنستے میاں اتنی محنت کر رہے ہو کوئی خزانہ نکلے گا زمین سے کیا
لیکن یہ اپنے کام سے کام رکھتے
پہلے سال زمین سے اتنی آمدن ہوئی کہ بمشکل ہی گزارہ ہوا
اگلے سال اتنا ہوا کہ بیلوں کی اپنی جوڑی لے لی
اس سے اگلے سال اپنی زمین کے ساتھ آدھا ایکڑ خرید لیا
یاد رہے کہ یہ سوکھی روٹی کچے پیاز یا پھر تھوڑی عیاشی یہ کہ اپنے ہاتھ کا بنا اچار  کبھی کھا لیتے
گوشت صرف بقر عید پر نصیب ہوتا
لیکن محنت اتنی کی اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا  کہ اب صرف ان دو بھائیوں کی اولاد کے پاس 100 ایکڑ زمین تین چار چھوٹے بڑے ٹریکٹر مال مویشی (گائے ، بھینسوں ) کا باڑہ
شہر میں ذاتی دوکانیں دو تین  کاروبار اور بینک  بیلنس کم از کم 60 یا ستر لاکھ لیکن ابھی بھی ان کا رہن سہن سادہ
راہق  (کسان) کے ساتھ خود بھی کام میں لگے ہوئے

کسان  کے ساتھ بیٹھے ہوں تو آپ پہچان نہ پائیں گے کہ ان میں زمیندار کون ہے اور ہاری یعنی کسان  کون ہے  اتنے سادہ لباس
یہ تو تھا ایک پنجابی مہاجر کا قصہ ایسے لاتعداد واقعات ہیں اب کون کون سے لکھوں

اگلی قسط میں سرائیکی زمیندار کا قصہ لکھ کر اپنی بات مکمل کروں گا  انشاءاللہ

جمعرات، 31 دسمبر، 2015

الوداع 2015

یارا ایک سال اور زندگی کا ختم ہو گیا
نئے سال کی آمد ہے آج کی رات اکیلے میں تھوڑی دیر کے لئے سوچیں ہم نے کیا پایا کیا کھویا کیا حسرتیں رہ گئیں کونسی خواہشات پوری ہو گئیں
پھر سوچیں ایک سال پہلے ہماری کیا خواہشات تھیں اور اب نئے سال پر کیا خواہشیں ہیں
ایک سال پہلے ہماری کیا خواہشیں تھیں جو ناگزیر تھیں جن کو پانے کے لئے ہم نے رو رو کر محنت اور لگن سے کام کر کے پورا کیا
کیا ایک خواہش کے پوری ہونے سے ہمارا مقصد پورا ہو گیا
نہیں ناں
بالکل
ایک خواہش کے پورا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اب خواہشیں ختم ہو گئیں بلکہ ایک خواہش کے بعد درجنوں نئی خواہشیں قطار میں کھڑے سامنے آجاتے ہیں
اور پھر ہم پھر دوڑنے لگ جاتے ہیں ایک نئی خواہش کے پیچھے
پیارے یہی زندگی ہے
اور اسی طرح ایک دن زندگی کی شام ہو جاتی ہے اور خواہشیں رہ جاتی ہیں
پچھتاوے رہ جاتے ہیں
زندگی مختصر ہے بہتر ہے اس مختصر زندگی کو اچھے کاموں میں لگایا جائے کسی کے کام آیا جائے
نفرت کو چھوڑیں محبت بانٹیں
تاکہ جب ہماری زندگی کی شام ہو جائے تو صرف پچھتاوا ناں ہو
بلکہ کچھ نیکیاں بھی ہوں
نیکی چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو
کہ رب بہت بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے

منگل، 2 جون، 2015

جب برصغیر کے اہلدیث اور احناف ایک تهے

جب برصغیر کے احناف اور اہلحدیث   ایک جماعت تھے
جیساکہ ہمیں معلوم ہے، انگریز کے برصغیر میں قدم دھرنے سے پہلے، ’اھل الجماعۃ‘ اپنے اکابر علماء کی سرکردگی میں یوں تھے کہ:

احناف اور اہلحدیث ایک جماعت تھے..

احناف (اپنے ان تمام افکار و نظریات کے ساتھ جو بعد ازاں ’دیوبند‘ کے نام سے معروف ہوئے)…

اور اہلحدیث (اپنے اس تمام تر ترکِ تقلید والے تھیسس thesis  کے على الرغم)…

ایک جماعت ہر معنیٰ میں۔ فرق تھا تو علمی رَوَشوں کا۔ ان مختلف علمی رَوَشوں کے باوجود (جس کی پوری گنجائش ہے) وہ مکمل طور پر ایک تھے۔ کسی فوٹو سیشن کےلیے نہیں؛ بلکہ فی الحقیقت ایک تھے۔

احناف اور اہلحدیث ایک جماعت۔ ایک امیر۔ مل کر جہاد۔ مل کر تعمیر امت۔ مل کر امت کے دشمنوں سے نبردآزما۔ نہ الگ الگ نمازیں۔ نہ آپس میں اونچی اونچی فصیلیں۔ نہ علیحدہ علیحدہ مسجدیں۔ اور نہ جدا جدا ملتیں۔ سب کے ایک ہی امیر: سید احمد بریلویؒ۔ اُس ’ایک‘ ہی ’جماعت‘ میں کوئی اہلحدیث ہے تو فتاوى اور فقہی راہنمائی کےلیے شاہ اسماعیل دہلویؒ۔[*]   اُس ’ایک‘ ہی ’جماعت‘ میں کوئی حنفی ہے تو فتاوى و فقہی راہنمائی کےلیے مولاناعبد الحیّ بڈھانویؒ۔ نہ لڑائی نہ بھڑائی۔ نہ طعنے۔ نہ ’نماز نہ ہونے‘ کے فتوے۔ سانجھے غم۔ مشترکہ اہداف۔ باہم شیر و شکر۔ (بنعمتہٖ إخواناً)۔

دراصل یہ وہ اسلامی باقیات تھیں جو ہمارے اِن مسلم معاشروں میں صدیوں سے چلی آئی تھیں۔ الگ الگ ’ملتوں‘ کا نقشہ پیش کرنا ابھی باعمل مسلمانوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مسلمان بےعمل ضرور ہوگا۔ لیکن جب باعمل ہوتا تو وہ ایک ہی جماعت ہوتا۔ باعمل مسلمان اور آپس میں ’فی سبیل اللہ فساد‘؛ یہ منظر یہاں اِس سطح پر ابھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا! دین داروں کے یوں باہم دست و گریبان ہونے کو کم از کم دین سے انحراف ضرور سمجھا جاتا تھا۔ اِس کو ’خدمتِ دین‘ کم از کم باور نہ کیا جاتا تھا؛ اور اس پر ’اجر و ثواب‘ کی امید رکھنے کا برتہ بہرحال پیدا نہ ہوا تھا۔

ہاں انگریز کے ڈیڑھ سو سال یہاں گزار لینے کے بعد البتہ نقشہ اور تھا، جوکہ آج ہمارے سامنے ہے: احناف و اہلحدیث کی لڑائی؛ باعثِ ثوابِ دارین!

یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جو  اَب سو سال سے ہمارے تحریکی وجہادی عمل کا راستہ روک کر کھڑی ہے۔

اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے بہت سی برف پگھلی ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد اب یہ خول توڑ چکی ہے۔ برصغیر سے باہر کی علمی قیادتوں کا تحریری و تقریری سرمایہ کسی نہ کسی صورت ان تک پہنچ رہا ہے؛ جس کے لیے انگریزی زبان بھی اب اچھا خاصا ذریعہ بن گئی ہے، جس سے ہمارے نوجوانوں کو عالم اسلام کی کچھ اعلیٰ سطح کی علمی و تحریکی شخصیات سے براہ راست یا بالواسطہ مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ اِس سے؛ کم از کم اِن کو اندازہ ہو رہا ہے کہ برصغیر کی ’دیوبندی۔اہلحدیث‘ لڑائی دین کی کوئی خدمت نہیں؛ بلکہ احیائے دین کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے؛ (یا شاید اصل رُکاوٹ ہے)؛ جو یہاں تقریباً ہر دیندار نوجوان کی عمر کے کچھ ابتدائی سال اکارت کروانے کا باعث بنتی ہے؛[1]  جس کے بعد وہ جیسے جیسے عالمی احوال سے واقف ہوتا، اور امت کی سطح کی تحریکی و دعوتی شخصیات کے علمی ڈسکورس سے آگاہ ہوتا ہے، ویسےویسے وہ اپنے اس مقامی مائنڈسیٹ mindset سے نجات پاتا چلا جاتا ہے جس کی رُو سے انسانی دنیا کو ’حنفی اور اہلحدیث‘ کے مابین تقسیم کر کے دیکھا جاتا ہے!

غرض کچھ وقت لگا کر ہی سہی، کچھ طویل چکر کاٹ کر ہی سہی؛ عالم عرب کے مسلم داعیوں سے ذہنی وابستگی قائم کر لینے کے بعد ہی سہی، ’مسالک کی لڑائی‘ سے اس نوجوان کی بہرحال جان چھوٹتی جا رہی ہے؛ اور یہ اسی بقدر امت کےلیے ایک کارآمد سرمایہ بنتا جا رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ اِس نوجوان سرمائے کو لے کر آج اگر کسی صالح اسلامی ایجنڈا کے ساتھ یہاں کے سماجی میدانوں میں اترا جائے تو لبرلوں کے غول کبھی ان شاءاللہ اس کے مقابلے پر نہ ٹھہر سکیں۔ دھیرے دھیرے سہی، شعور بیدار ہو رہا ہے۔ گروہی لڑائیوں سے یہ نوجوان دور ہوتا جا رہا ہے۔ امت کو مزید لڑوانے پر اب یہ نوجوان یقین نہیں رکھتا؛ بلکہ اب یہ امت کو جوڑنا چاہتا ہے؛ اور اس کےلیے کچھ مستند نسخوں کا متلاشی ہے۔ یہ اب اُن بڑی بڑی دراڑوں کو پاٹنا چاہتا ہے، جن کی بابت برصغیر کی سطح پر کم از کم یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انگریز دور کا تحفہ ہے؛ جسے مسترد کرنے کےلیے داعیۂ عمل روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔

وہ پوائنٹ جو دورِ انگریز میں ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اور جوکہ اہلحدیث شاہ اسماعیل دہلوی  اور حنفی  مولانا عبد الحی بڈھانوی کو ’ایک جماعت‘ بناتا تھا، آج اِن نوجوانوں کو ’ایک جماعت‘ بنانے کےلیے پھر سے بےچین ہے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہوگی؛ جو شاید برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دے۔ زیادہ دیر نہیں کہ __  ان شاء اللہ وبفضلہٖ تعالی __ برصغیر کے اہل سنت کی یہ ’الجماعۃ‘ واپس اسی نقطے پر جانے والی ہے جہاں کوئی اہلحدیث شاہ اسماعیل اور کوئی حنفی عبد الحی پھر سے اُسی طرح شیروشکر؛ ایک ہی جماعت کی صورت پیش کر رہے ہوں گے؛ اور کوئی سید احمد مسلکوں کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سب کو ایک قافلہ بنا کر چلا رہے ہوں گے۔ وما ذلک على اللہ بعزیز۔ ان شاء اللہ یہ ہو کر رہنا ہے۔ اس کے بغیر برصغیر کا مسلمان کبھی سر نہ اٹھا سکے گا اور ذلت کی یہ شب دیجور دراز ہوتی جائے گی۔ ایسے اندھیرے میں صرف ہماری ’مناظرے‘ کی انڈسٹری ہی ترقی کر سکتی ہے؛ مگر ہمارے نوجوان کے جاگ اٹھنے کے باعث، اس شبِ تار کی سطوت زوال پزیر ہے۔

ہمیں معلوم ہے، بہت سی چندھیائی ہوئی آنکھیں اِس صبح کی تاب لانے کی نہیں۔ یہ اُنہی اندھیروں سے مانوس ہیں جن میں انگریز اور ہندو کی قیامت خیز برتری پر اِک نگاہِ غلط انداز ڈالتے ہوئے؛ پوری یکسوئی ودلجمعی کے ساتھ یہاں ایک مسلک دوسرے مسلک کو فتح کرتاہے!یہ سب وابستگانِ شب اپنی اپنی ’تحقیق‘ یا ’تقلید‘ کے ساتھ اِس صبح کا راستہ روکنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں اور ہم ایسوں کو ’اکابرِ برصغیر کی محنت پر پانی پھیرنے‘ کے طعنے دیں گے؛ اور لوگوں کے اندر ایک مسلکی حمیت کو ابھار کر ہم ایسی آوازوں کے خلاف جذبات برانگیختہ کرائیں گے۔ یہ سب ہمارے لیے غیر متوقع نہیں۔ ہم یہ گالیاں پچھلے تین عشرے سے کھا رہے ہیں۔ ان تین عشروں میں ہم نے دیکھا، امت کا نوجوان غیر معمولی تعداد میں ’حنفی۔اہلحدیث جنگ‘ سے باہر آ کر اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے لگا ہے؛ اور اُن چھوٹے چھوٹے دائروں سے اوپر اٹھ کر ’امت‘ کی سطح پر سوچنے لگا ہے۔ گروہی مصنوعات اب اُس کامیابی کے ساتھ فروخت نہیں ہو رہیں جس زوروشور کے ساتھ وہ آج سے تین چار عشرے پیشتر نکل رہی تھیں۔ یقین نہ آئے تو یہاں کی مناظرانہ سرگرمیوں پر ایک سرسری نظر ڈال لیجئے؛ آپ کو اندازہ ہو جائے گا اِس بازار کی رونقیں کس تیزی کے ساتھ ماند پڑی ہیں۔ خصوصاً یہ کہ ہمارا اعلیٰ تعلیم یافتہ دیندار نوجوان اِس مجمع میں اب آپ کو کہاں نظر آتا ہے؛ تقریباً کہیں نہیں۔ فالحمد للہ على ذلک۔ یہاں تک کہ بہت سوں کو آج مجبوراً وہ گروہی لہجے دھیمےکرنے پڑ رہے ہیں؛ کیونکہ ان گروہی لہجوں کے ساتھ اب اِن حضرات کی پزیرائی معاشرے میں ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں کے بہت سے فورَم جو دو یا تین عشرے پیشتر نہایت جوش و خروش کے ساتھ مسالکِ دیگر کا بطلان کیا کرتے تھے، آج پبلک میں ان مسئلوں پر مٹی ڈالتے نظر آتے ہیں۔ یہ اتنا عظیم واقعہ یوں ہی نہیں ہوگیا!!! اب تو ضرورت صرف اتنی ہے کہ کچھ مقامی علماء باقاعدہ اِس عمل کی سرپرستی کرنے کو میدان میں اتریں؛ اور اُس ’سید بادشاہ کے قافلے‘ کی تشکیلِ نو کی جانب بڑھیں؛ جہاں اہل سنت کا تمام شیرازہ ایک چھتری تلے جمع ہو۔ اِس کےلیے فضا سازگار کرنے کےلیے؛ کچھ اصحابِ علم و فضل کو بہرحال آگے آنا ہوگا۔ اِس عظیم متوقع پیشرفت کو شاید اب اِسی کا انتظار ہے۔ یہ واقعہ آج ہو جائے یا کل، پھر دیکھئے پچھلے ڈیڑھ سو سال کا وہ طرزِکہن کس طرح چھٹتا ہے۔ شاید چند عشروں کی محنت سے ہی یہ معاملہ ڈیڑھ سو سال پہلے کی ڈگر پر لوٹ جائے۔

یہ امید افزا صورتحال ہمیں باور کراتی ہے کہ برصغیر کی ’الجماعۃ‘ اپنے اُسی ’ما قبل انگریز‘ پوائنٹ پر واپس جانے… اور وہاں سے اپنا رُکا ہوا سفر آگے بڑھانے …کا اچھا خاصا پوٹینشل پیدا کر چکی ہے۔ اِس پوٹینشل کو قابل عمل و نتیجہ خیز بنانا البتہ یہاں کے مصلحین پر ہے کہ خود یہ اِس معاملہ میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ’قیادتیں‘ قوموں کی کسی حقیقی ضرورت کا نام ہے، حضرات! یہ کوئی ایسی غیرضروری چیز ہوتی تو ضرور قومیں اس کےبغیر بھی گزارہ کر لیا کرتیں!

آئیے سب مل کر اس کےلیے سرگرم ہوں۔ اتحادِ امت کےلیے مسلک چھڑوانے کی اپروچ ہمارے نزدیک غیرضروری ہے۔ بلکہ نادرست ہے۔[2]   ہاں مسلک کو ’جماعت‘ کی بنیاد بننے سے روکنا ہوگا۔ یہاں ’فقہ الجماعۃ‘ کا احیاء ضروری ہے؛ جس میں فقہی مسالک کا باقاعدہ تحفظ بھی ہے البتہ ’الجماعۃ‘ کی حقیقی بنیادوں کی اقامت بھی۔ یقین کیجئے، احناف و اہلحدیث کے چند علماء (وقت کے اسماعیل و عبدالحی) اگر ’اِحیائے جماعت‘ کا یہ علم اٹھا کر آج کھڑے ہو جائیں… تو دیگر بہت سے عوامل ان کی پشت پر پہلے سے پائے جانے کے باعث، یہاں بہت جلد ’جمعِ کلمہ‘ کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں۔ ہاں اس کےلیے طرفین کے جیالوں سے کچھ تند و ترش سننا ضرور ہوگا؛ یہ قیمت دیے بغیر تحریکی و اصلاحی عمل میں کبھی کچھ ہاتھ نہیں آتا! مستقبل کی نسلوں سے __ نسلوں تک  __ دعائیں لینے کےلیے معاصرین کی کچھ جلی کٹی سننا بہرحال ضروری ہوگا؛ اِس خدائی سنت کو طرح دینا شاید کسی کےلیے ممکن نہ ہوگا۔

*****

بعض اشیاء کو ان کے اصل سیاق میں رکھنا ضروری ہے۔ فرضی اور جدلیاتی باتوں میں پڑنا حقیقت سے صرفِ نظر کرانے کا باعث بنے گا۔ برصغیر کی آنکھ نے اہلحدیث اور دیوبندی کے مابین آج تک جو مناظرے دیکھے وہ آمین بالجہر، رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام ایسے مسائل پر ہی ہوتے رہے ہیں۔ شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ طرفین میں مناظرے ’صفاتِ خداوندی‘ یا ’تجسیم و تشبیہ‘ یا ’حلول و اتحاد‘ ایسے مسائل پر منعقد ہوئے ہوں! (’حلول و اتحاد‘ ایسے مسائل پر مناظرے ہوتے بھی کس طرح جب دونوں جانب کے اہل علم کی ایک بڑی تعداد ابن عربی کو ’محی الدین شیخ اکبر‘ مانتی آئی ہے!)۔ دونوں طرف کے عوام کو پوچھ کر دیکھ لیجئے، بہت کم ہوں گے جو اِن اختلافات کو جانتے تک ہوں۔ دانشمندی اور خداخوفی کا تقاضا یہ ہوگا کہ صفاتِ خداوندی وغیرہ ایسے اِن مسائل میں ’فلاں یہ کہتا ہے اور فلاں یہ کہتا ہے‘ کی تعیین کیے بغیر لوگوں کو حق کی تعلیم دی جائے۔ بصورتِ دیگر، لوگ ایک ایسی چیز پر جسے وہ جانتے تک نہ تھے اور جو انہوں نے سن تک نہ رکھی تھی، محض اپنے بڑوں کا نام سن کر پختہ ہونے لگیں گے؛ اور تب ان کو اس سے ہٹانا کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔ یہ دراصل لوگوں کو ایک غلطی پر پختہ کرنا ہوگا نہ کہ اس غلطی کا ازالہ کرنا؛ اگر واقعی مقصد لوگوں کو حق سکھانا اور حق پر پختہ کرنا ہو۔

اِدھر کیا ہوا ہے؟ ’مسلکی‘ پیراڈائم کو چھوڑ چھوڑ کر جانے والے اِس ہوشمند نوجوان سے اب کیونکہ یہ بہت زیادہ سننے کو ملتا ہے کہ ’فروع‘ پر دنگا اٹھانا ایک نہایت غیرعلمی رویہ ہے… یکلخت کچھ لوگوں کو یاد آیا کہ یہاں تو کچھ ’عقیدے کے مسئلے‘ بھی پڑے ہیں؛ لہٰذا ہم تو اِس وجہ سے ان کے خلاف نماز چھڑواتے اور ان کے خلاف محاذ اٹھاتے ہیں! حق یہ ہے کہ ان حضرات کی ڈیڑھ سو سالہ مناظرانہ سرگرمی آپ اپنی کہانی بتاتی ہے کہ وہ کونسے مسائل ہیں جو ’اِن‘ کے اور ’اُن‘ کے مابین لڑائی بھڑائی کا عنوان چلے آئے ہیں۔ ’رفع یدین و آمین سے زیادہ بنیادی نوعیت کے‘ مسائل اگر کہیں تھے تو وہ اِن عوامی مناظروں کے روحِ رواں کیوں نہیں رہے؟!

ایک بات اظہر من الشمس ہے: لڑنے کےلیے درکار ’وجوہات‘ کے طور پر یہ مسائل ایک ایک کر کے اب یاد آرہے ہیں! ایک صدی رفع الیدین اور آمین کے مسئلوں نے نکال دی؛ ایک مزید صدی اب اِن مسئلوں میں سہی؛ پھر کچھ اور مسئلے نکل آئیں گے؛ اور کام چلتا رہے گا!

اصلاحِ عقیدہ مطلوب ہے تو اس کا یہ طریقہ بہرحال نہیں۔

اس سے پہلے ہم شیخ سفر الحوالی کے رسالہ ’اصول تعاملِ اہل قبلہ‘ میں یہ بات دیکھ آئے ہیں کہ لوگوں میں اصل یہ ہے کہ وہ سنت پر ہیں (کُلُّ مَولُودٍ یُولَدُ علَى فطرۃِ الإسلام) تاآنکہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ کسی بدعتی عقیدے نے واقعتاً کسی شخص کے نظریات خراب کر دیے ہیں؛ تب تلک و ہ اہل سنت ہے۔ پس جہاں ایک بدعتی عقیدہ لوگوں کو __  الا ما شاء اللہ __  معلوم ہی نہیں، وہاں ان کو بدعت پر جاننے کا کیا سوال؟ ایسی کسی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی، منافرت اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں چھوڑنا، چہ مطلب؟؟؟ یہاں ’تعلیمِ عقیدہ‘ مطلوب ہے تو اس کا تو یہ طریقہ نہیں۔ ہاں لڑنے کےلیے کچھ اضافی وجوہات درکار ہیں تو وہ بہرحال آپ کو میسر آتی رہیں گی۔ ایک ختم کر دی جائے گی تو دوسری آ کھڑی ہو گی؛ اور یہ سلسلہ جتنی دیر تک آپ جاری رکھنا چاہیں، رہ سکتا ہے!!!

جہاں تک (لڑنے کےلیے درکار) ان ’اضافی‘ وجوہات کا تعلق ہے تو اس پر بھی ہم کچھ نہ کچھ لکھتے آئے ہیں اور ان شاءاللہ مزید بھی لکھیں گے: ضروری نہیں عقیدہ کا ہر مسئلہ لڑائی بھڑائی کا مستوجب ہو۔ ’عذر بالجہل‘ (لاعلمی کی بنیاد پر کسی کو عذر دینا) عقیدہ کے مسئلہ میں بھی چلتا ہے۔ علمی الجھنوں میں جا پڑنے کی گنجائش عقیدہ کے مسئلوں کے اندر بھی مانی گئی ہے۔ مسلمانوں کی وحدت (الجماعۃ) عقیدہ کے بہت سے اختلافات کے على الرغم مطلوب رہتی ہے؛ اور باطل کے مقابلہ پر اہل سنت کا مشترکہ محاذ اِن سب امور کے باوجود برقرار رہتا ہے۔ امت میں شیرازہ بندی کے لہجے ایسے مسئلوں کے باوجود اپنی ضرورت اور وُقعت نہیں کھوتے۔ لہٰذا ’عقیدہ‘ کے بعض اختلافات کا حوالہ دے لینا بھی اِس ’دیوبندی۔اہلحدیث‘ جنگ کو طول دینے کےلیے کوئی علمی بنیاد نہیں۔ اصولِ اہل سنت کی رُو سے، ’عقیدہ‘ کے یہ اختلافات بھی اندریں حالات اس چیز کی بنیاد نہیں بن سکتے کہ کوئی ’دیوبندی۔اہلحدیث‘ نزاع اٹھایا جائے۔ ان کے مابین یگانگت اور شیرازہ بندی پھر بھی مطلوب رہے گی۔ اِس مسئلہ کے ردّ پر (عقیدہ کے بعض مسائل کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے اِن دو مخلص گروہوں کے مابین مخاصمت و منافرت اٹھانے کے ردّ پر) ان شاءاللہ ہم وقتاًفوقتاً اصولِ اہل سنت سے مواد پیش کرتے رہیں گے۔ یہاں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس وحدت اور احیائے جماعت میں شرعاً مانع ہو۔ آئیے جماعت کے اِس اِحیاء کی جانب عملاً قدم بڑھائیں؛ اور اس ذلت اور ادبار سے امت کو رہائی دلانے کی فکر کریں۔ کافر اور اس کے ایجنڈا کے خلاف یہاں جس درجہ کی قوت درکار ہے وہ برصغیر کی سطح پر ’الجماعۃ‘ کے اِس اِحیاء کے بغیر ممکن نہیں۔

[*]   اِس واقعہ سے ان لوگوں کی بات غلط اور گمراہ کن ٹھہرتی ہے جن کا کہنا ہے کہ ’اہلحدیث‘ یہاں (برصغیر میں) انگریز کے آنے کے بعد نمودار ہونے والا ایک گروہ ہے۔ بلکہ بعض ظالم یہ کہتے ہیں کہ ’اہلحدیث‘ یہاں پر انگریز کا تحفہ ہے! سید احمد بریلوی کی جماعت کا ایک بڑا حصہ اہلحدیث پر مشتمل ہونا، جوکہ ماقبل انگریز ہند کی تصویر دکھاتا ہے، اس دعوے کو جھٹلانے کےلیے بہت کافی دلیل ہے۔

[1]    کاش ہمیں اندازہ ہو جائے، اگر ہمارا یہ ’اہل سنت‘ کسی فوٹو سیشن کےلیے نہیں بلکہ حقیقتاً ایک ہو جائے… تو برصغیر کی سب سے بڑی قوت ہمیشہ کی طرح آج بھی ’مسلمان‘ ہے نہ کہ ہندو۔ ہندو کی یہ معمولی سی عددی برتری مسلمان کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں۔ برصغیر کے سب دریا اور ندی نالے ان شاء اللہ آج بھی مسلمان کی دیے ہوئے رخ پر بہنے کےلیے تیار ہیں اگر یہاں کا ’اہل سنت‘ ’اہل الجماعۃ‘ کے طور پر اپنا ظہور کر سکے۔ (ید اللہ على الجماعۃ)۔  کاش ہم اپنے ان وہمی معرکوں سے نکل آئیں جن میں ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں؛ اور جن کے باعث ہم کافر کےلیے تر نوالہ بنتے ہیں۔ یا لیتَ قومی یعلمون!

[2]    ہم کئی ایک مقامات پر اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ برصغیر کی ’مسلکی اپروچ‘ یہاں جس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی، اس کی جگہ پر جو ایک ’غیر مسلکی اپروچ‘ سامنے لائی گئی ہے، وہ اُس سے کہیں بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہوگی اور تھوڑا آگے چل کر طرح طرح کی انارکی لانے کا موجب بنے گی۔ اس کےلیے حل نہ ’مسلکی‘ جماعتیں ہیں اور نہ ’غیر مسلکی‘۔ اِس کا حل ’اھل الجماعۃ‘ کا وہی قدیمی نسخہ ہےجو فقہی مسالک کو ایک بڑے اکٹھ میں شانہ بشانہ چلاتا ہے۔ اِس لحاظ سے؛ فقہی مسالک کی بابت سید احمد بریلوی  کے ہاں پایا جانے والا طرزِعمل ہمیں بعد ازاں سید مودودی   کے ہاں پائے جانے والے طرزعمل کی نسبت کہیں زیادہ صحیح اور مستند نظر آتا ہے؛ جہاں دونوں فقہی مذاہب کو ’ری کونسائل‘ reconcile   کروانے کی بجائے باقاعدہ ایک اعتبار دیا اور برقرار رکھا جاتا ہے۔ دونوں فقہی مسالک کو کسی ’مشترکہ‘ پوائنٹ پر لانے کی ایک عبث کوشش کی بجائے، یا فتوىٰ کو کسی ’مرکزی قیادت‘ کے ہاتھ میں دینے کی بجائے، ہر مسلک کے اپنے اپنے علمی مراجع کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ نہ صرف رہنے دیا جائے؛ بلکہ ہر مسلک کے اپنے اپنے فقہی مراجع کو جماعت کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ جاری کروایا اور مرجع ٹھہرایا جائے۔ جماعتی قیادت اگر اجتہاد کے مرتبے پر ہے تو وہ صرف جماعتی پالیسیوں کے معاملہ میں ہی لوگوں کو اپنے اجتہاد پر چلائے؛ باقی معاملات میں ان کو اپنے اپنے فقہی مصادر سے رجوع کرنے کی راہ دکھائے۔ یہ چیز کہیں زیادہ دیرپا ہے اور ہمارے پیچھے سے چلے آنے روایتی تاریخی عمل کا کہیں بڑھ کر آئینہ دار۔

بشکریہ
ماہنامہ ایقاظ لاہور