Pages

جمعہ، 1 جنوری، 2016

اعتراف

مجھ سے ہر کوئی اختلاف کر سکتا ہے
جو میں نے محسوس کیا وہ بیان کر رہا ہوں

سرائیکی کہاوت ہے
ٹر آپ نہ سگھاں ڈوہ گوڈیں تے ڈیواں
(چل خود نہ سکوں اور الزام گھٹنوں پر )
جب میں نے نوجوانی میں قدم رکھا تو مجھ میں قوم پرستی کے جراثیم بہت تھے میرا مطلب یہ سرائیکی پنجابی مہاجر  والا تعصب مجھ میں بھی تھا
یہ نہیں کہ میں کھلم کھلا اس کا اظہار کرتا تھا بلکہ چوری چھپے نجی محفلوں میں  یہ قوم پرستی کی باتیں ہوتی تھیں
میں سمجھتا تھا کہ یہ جو پنجابی ہیں ناں یہ ہمارے سرائیکیوں کے حقوق پر ڈاکہ مارے ہوئے ہیں
ہمارے دیہات نما شہر میں سارے کاروبار چاہے کریانہ ہو آڑھتی ہو زمیندار ہو وغیرہ وغیرہ  پر پنجابی قابض اردگرد ساری زمینوں کے 90% مالک یہ پنجابی
تو میں سوچتا تھا کہ یہ سب قابض ہیں جو انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں سادہ لوح سرائیکیوں پر حکومت کرتے ہیں
تعصب کی پٹی آنکھوں پر چڑھی ہو تو سامنے کی سچائی بھی نظر نہیں آتی
تو تعصب کی وجہ سے پنجابیوں کی محنت کام سے لگن یہ سب نظر نہیں آتا تھا
لیکن  کافی تحقیق اور سوچ وچار کے بعد اب سمجھ آیا کہ میں غلط تھا
پنجابیوں یا مہاجر کہہ لیں انہوں نے جتنی ترقی کی ہے یہ ان کی بے پناہ محنت لگن قربانی کا نتیجہ ہے
میں صرف ایک دو واقعات سنا کر بات ختم کرتا ہوں
ہمارے گاؤں یا قصبہ کہہ لیں
یہاں پر سنہ1947 میں کرنال سے آرائیں قوم کا ایک خاندان ہجرت کر کے آیا
یہاں پر انہیں 5 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی جو غیر آباد تھی دو بھائی تھے دونوں نے مل کر محنت شروع کر دی صبح فجر کی نماز پڑھ کر زمین پر آ جاتے بیلوں کی جوڑی ونگار  (مانگ کر ) لے کر کام پر لگ جاتے اور شام تک لگے رہتے روکھی سوکھی کھا کر شکر ادا کرتے کبھی دیہاڑی پر مزدوری بھی کر لیتے
موسم چاہے سرد ہو یا گرم بارش آئے یا طوفان یہ کام پر لگے رہتے 
مقامی لوگ ان پر ہنستے میاں اتنی محنت کر رہے ہو کوئی خزانہ نکلے گا زمین سے کیا
لیکن یہ اپنے کام سے کام رکھتے
پہلے سال زمین سے اتنی آمدن ہوئی کہ بمشکل ہی گزارہ ہوا
اگلے سال اتنا ہوا کہ بیلوں کی اپنی جوڑی لے لی
اس سے اگلے سال اپنی زمین کے ساتھ آدھا ایکڑ خرید لیا
یاد رہے کہ یہ سوکھی روٹی کچے پیاز یا پھر تھوڑی عیاشی یہ کہ اپنے ہاتھ کا بنا اچار  کبھی کھا لیتے
گوشت صرف بقر عید پر نصیب ہوتا
لیکن محنت اتنی کی اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا  کہ اب صرف ان دو بھائیوں کی اولاد کے پاس 100 ایکڑ زمین تین چار چھوٹے بڑے ٹریکٹر مال مویشی (گائے ، بھینسوں ) کا باڑہ
شہر میں ذاتی دوکانیں دو تین  کاروبار اور بینک  بیلنس کم از کم 60 یا ستر لاکھ لیکن ابھی بھی ان کا رہن سہن سادہ
راہق  (کسان) کے ساتھ خود بھی کام میں لگے ہوئے

کسان  کے ساتھ بیٹھے ہوں تو آپ پہچان نہ پائیں گے کہ ان میں زمیندار کون ہے اور ہاری یعنی کسان  کون ہے  اتنے سادہ لباس
یہ تو تھا ایک پنجابی مہاجر کا قصہ ایسے لاتعداد واقعات ہیں اب کون کون سے لکھوں

اگلی قسط میں سرائیکی زمیندار کا قصہ لکھ کر اپنی بات مکمل کروں گا  انشاءاللہ